سمندر سے مکالمہ
١
دور سمندر
دور بہت ہی دور
دوری کا سنگیت ہوائیں
اس کے عمق کی میت ہوائیں
چپ بستی کا گیت ہوائیں
گہرے رستے "سیت " ہوائیں
اور تھکن سے چور ، سمندر
دور بہت ہی دور
٢
تیرے نم کی باس سمندر
تیرے نم کی باس
تو بادل کی پوروں میں
چلنے والا اک جوگ
تیرا سایہ، نقش اڑاتا
چہروں کا سنجوگ
تجھ سے چاہت رکھنے والے
سدا منائیں سوگ
تیرے ہونٹوں سے چپکی ہے
کن صدیوں کی پیاس ، سمندر
تیرے نم کی باس
٣
دوری کا ہر بھید سمندر
ہم کو تجھ سے پیار
تیری لہر پہ بہنے والی
آنکھیں اتریں پار
سانسیں پی کر جسم اگل دے
تجھ میں سب سنسار
ہم ہیں جیون ہار سمندر
ہم ہیں جیون ہار
٤
بھولی بسری یاد سمندر
بھولی بسری یاد
تیرے نم کے گیت سے دوری ،ابد میں چلتی جاے
تجھ سے پیار بڑھا کے ،اس جیون کی کتھا پچھتاے
تیری کھوج میں نکلے دل کو ، کیسے کوئی سمجھاے
سانسیں دھول میں لت پت
آنکھیں مٹی میں آباد سمندر
بھولی بسری یاد
ابرار احمد