جوار خواب سے ،اس رنج رائیگاں سے نکل
بہت خراب ہوا ہے ، سو اب یہاں سے نکل
وہ خستگی ہے کہ اب تاب آرزو بھی نہیں
اے میری جان! تو اب ، میرے جسم و جاں سے نکل
کہ آشنا ہے میرا ہی نہ جانتا ہے اسے
تو درمیاں کا نہیں ہے تو درمیاں سے نکل
نکل کہ اور کہیں کوئی منتظر ہے ترا
مرے یقیں سے گزر جا ، مرے گماں سے نکل
عدو کی خیر ہو ،گر چہ کہاں یہ ممکن ہے
کہ تیر اب تو گیا ہے مری کماں سے نکل
تیرے سوا بھی ہے کہنے کو میرے پاس بہت
سو میری عرض تمنا میرے بیاں سے نکل
ابرار احمد