مرحلے رنج کے سر کرتا ہوں
جانب مرگ سفر کرتا ہوں
پہلے الزام اٹھاتا ہوں کوئی
پھر زمانے کو خبر کرتا ہوں
کام جو سب نے کیے ہیں ،ان کو
میں بہ انداز دگر کرتا ہوں
عمر کچھ خواب میں بیتی اور کچھ
بے خیالی میں بسر کرتا ہوں
لوٹ جاتا ہوں محبت کی طرف
جب بھی دنیا پہ نظر کرتا ہوں
روکے رکتی نہیں جب یورش غم
تیری چاہت کو سپر کرتا ہوں
پہلے دیوار گراتا ہوں کوئی
پھر اسے راہ گزر کرتا ہوں
سہما رہتا ہوں بہت اندر سے
بات بے خوف و خطر کرتا ہوں
جی مچلتا ہے فراغت کے لیے
کام کوئی بھی اگر کرتا ہوں
ایک جانکاہ تعلق لے کر
تیری دنیا سے گزر کرتا ہوں
ابرار احمد