ہم ملیں گے ...نظم
جب ہم ملتے ہیں
ہمارے درمیان کچھ نہ کچھ آ جاتا ہے
مصلحت ، مصروفیت ، رفتار
اہداف یا عمر
خواہش کی آلودگی
یا پاکیزگی کی بساند
دیواریں ، فاصلے ، کاہلی یا تھکاوٹ .....
ملنے کے باوجود
کوئی کبھی کسی کو مل نہیں پایا
دنیا ....ایک ایسا جنگل ہے
جس میں سے گزرنے کا راستہ
ملاقات کی پتھریلی ، نا ہموار گھاٹی سے ہو کر جاتا ہے
ان پتھروں کے زخم سہلاتے
ہم گزر جاتے ہیں ...تنہا
ہم دمی کا واہمہ لیے
کانٹوں ، جھاڑیوں ، پھولوں اور وحشت کی
دل دھلاتی آوازوں کے بیچ میں سے
خاک کی
اپنی اپنی کمیں گاہوں کی طرف
ملنا ، اذیت بھری خوشی ہے
اور نہ ملنا ، خوشی بھری اذیت
سو ہم بھی ملیں گے دوست !
کسی اور آسمان کے نیچے
خاک سے اٹے ہوے کسی ان دیکھے دیار میں
اجنبی رہایش گاہوں کے درمیان
موسلا دھار بارش میں
کسی موڑ پر
لیمپ کی زرد روشنی کے نیچے
ٹین کی چھتوں کے مسلسل شور میں
اور نہیں مل پائیں گے
ہمیشہ کی طرح ....!
ابرار احمد