خواب سے ٹوٹ نہ جاۓ یہ بھرم آنکھوں کا
نیند کے دشت میں پہلا ہے قدم آنکھوں کا
دل کشادہ نہیں اتنے کہ سنبھالیں آنسو
آ کے پلکوں پہ ٹھہر جاتا ہے نم آنکھوں کا
ہر رفاقت کو کہاں خواب مسلسل ہے نصیب
ٹوٹ جاتا ہے کبھی ربط بہم آنکھوں کا
اک مسلسل رخ بیمار ہے تا حد نظر
ہم سے دیکھا نہیں جاتا ہے یہ غم آنکھوں کا
اک ابد خواب کی خوشبو میں بسا رہتا ہے
دھند میں سویا ہوا باغ عدم آنکھوں کا
ابرار احمد