غزل
یہ یقیں یہ گماں ہی ممکن ہے
تجھ سے ملنا یہاں ہی ممکن ہے
خواب اک ممکن و میسّر کا
گرچہ اس کا بیاں ہی ممکن ہے
بے حد و بے حساب شوق میں بھی
قصد کوے بتاں ہی ممکن ہے
تنگناۓ جہان ظاہر میں
یہ زمیں ، یہ زماں ہی ممکن ہے
حد سے حد اس رہ ہزیمت میں
پرسش رہرواں ہی ممکن ہے
آتش دل پہ ڈالنے کے لیے
ریگ راہ رواں ہی ممکن ہے
سرحد ممکنات سے آگے
سر پہ اک آسماں ہی ممکن ہے
آن بیٹھے کہ جی لگانے کو
صحبت دوستاں ہی ممکن ہے
عرصۂ زندگی میں تیری مری
صرف اک داستاں ہی ممکن ہے
کیا تماشا ہے ، یاں اٹھانے کو
ایک بار گراں ہی ممکن ہے
ابرار احمد