کوہ کن
پھینک یہ تیشہ اپنا
سر کو ٹکرا کے بہت دیکھ لیا
پتھروں سے کبھی آنسو نہیں ٹپکا کرتے
اک جنوں سے کبھی نہریں نہیں نکلا کرتیں
تیرے ہاتھوں میں سکت ،دل میں وہ وحشت نہ رہی
بیٹھ چشمے کے کنارے پے
بہا دے آنسو
بھر لے آنکھوں میں یہ سبزہ
یہ مہکتا منظر
آ ادھر لوٹ زمینوں کی طرف
اپنی بستی کو پلٹ، اپنے مکینوں کی طرف
اپنے پھولوں کی طرف دیکھ ، انھیں ہاتھ لگا
اٹھ کے بڑھ اپنوں کی جانب
جو تری راہ میں تھے
اور غیروں پے نظر کر اپنی
یہ جو رونق ہے ، لپکتی ہے ،
لپٹتی ہے ہر اک دامن سے
کوئی دیں اسس سے نمٹ
اس کے اندر سے گزر
خاک اوڑھے ہے، خوابوں سے لدی آنکھوں سے
اور یک رنگ شب و روز میں ٹھہری دنیا
جتنی بھی عدنا ہے، معمولی ہے
چھوڑ تکرار، گوارا کر لے
جو بھی موجود ہے
اب اس کا نظارہ کر لے
اپنی بےسود محبّت سے کنارہ کر لے
ابرار احمد