جوار خواب سے ،اس رنج رائیگاں سے نکل
بہت خراب ہوا ہے ،سو اب یہاں سے نکل
وہ خستگی ہے کہ اب تاب آرزو بھی نہیں
اے میری جان..تو اب میرے جسم و جاں سے نکل
نکل کہ اور کہیں کوئی منتظر ہے ترا
مرے یقیں سے گزر جا ، مرے گماں سے نکل
کہ آشنا ہے مرا ہی ،نہ جانتا ہے اسے
تو درمیاں کا نہیں ہے تو درمیاں سے نکل
عدو کی خیر ہو گر چہ کہاں یہ ممکن ہے
کہ تیر اب تو گیا ہے میری کماں سے نکل
ترے سوا بھی ہے کہنے کو میرے پاس بہت
سو میری عرض تمنا ،مرے بیاں سے نکل
ابرار احمد