(لوری سنا (نظم
مٹی اب ان قدموں تلے بےچین ہے
لوری سنا
اے ماں ! ہمیں لوری سنا
وہ جو دن بھلے تھے گزر گئے
وہ جو دن کڑے تھے گزر گئے
وہ جو پہلی رت کے گلاب تھے
انہی راستوں میں بکھر گئے
ہمیں بے کلی ہے نہ چین ہے
لوری سنا
یہ وہ شہر خواب و نظر نہ تھا
یہاں خاک میں وہ ہنر نہ تھا
یہاں دل زدوں کا گزر نہ تھا
پس گرد راہ رواں رہے
یونہی در پیے دل و جاں رہے
جو رہے بھی ہم تو کہاں رہے
ترے ناز ہم نے اٹھاے تھے
ترے پھول ہم نے کھلا ے تھے
ترے زخم دل سے لگاے تھے
ہمیں ازن رنج سفر تو دے
ہمیں واپسی کا ثمر تو دے
ہمیں اپنی گود میں گھر تو دے
ابرار احمد