دل میں کیا تھا جو کھو گیا ہے کہیں
میرا نقصان ہو گیا ہے کہیں
وہ تری کھوج میں رہا اور پھر
غالبن تجھ کو رو گیا ہے کہیں
ہار بانہوں کے ساتھ لایا تھا
اور کانٹے پرو گیا ہے کہیں
رنگ وہ لے گیا مگر مجھ میں
اپنی خوشبو سمو گیا ہے کہیں
تیری آواز بھی نہیں سنتا
کیا میرا بخت سو گیا ہے کہیں
ہمرہ صد ملال ہے وہ کبھی
اور ہر رنج دھو گیا ہے کہیں
یوں تہی دست و دل گرفتہ نہ تھا
کچھ نہ کچھ مجھ کو ہو گیا ہے کہیں
خواب جو نیند میں بھی تھا بیدار
آخر کار سو گیا ہے کہیں
ابرار احمد