تو ہے ، دل میں تری محبت ہے
اور کس چیز کی ضرورت ہے
ہم تہی دست ہیں سراپا طلب
اور ہر شے کی ایک قیمت ہے
تم جہاں ہم سے مل رہے ہو ،وہاں
دور تک عرصہ قیامت ہے
تم جہاں پھول چننے آے ہو
خوشبوؤں کی وہاں سے ہجرت ہے
کم نظر ہم نہ تھے مگر یوں ہے
یہ جو دنیا ہے ،اس میں رغبت ہے
ہم نہیں تیرے بندگاں میں تو کیا
تیرے قبضے میں ایک خلقت ہے
یہ اسیری نہیں ،رہائی نہیں
یہ تو کچھ اور ہی مصیبت ہے
کھول دے آنکھ ،دیکھ لے تو بھی
جو تری نیند میں کرامت ہے
ابرار احمد