غزل
قربتوں کی سرحدوں پر رسمیہ لکھا ہوا
فاصلوں کے رنگ میں ہے تصفیہ لکھا ہوا
آرزوؤں کی چتائیں ہر طرف رکھی ہوئیں
اور در و دیوار پر ہے تخلیہ لکھا ہوا
دل کی تختی سے مٹا ڈالے گئے سارے حروف
ایک جملہ رہ گیا ہے عشقیہ لکھا ہوا
زندگی دے گی تجھے زخموں کا تیرے بھی حساب
مل ہی جائے گا تجھے بھی تجزیہ لکھا ہوا
اب قلم کاغذ کی حاجت کچھ نہیں باقی رہی
چہرہ چہرہ مل گیا ہے مرثیہ لکھا ہوا
گفتگو میں کیسی شامل ہوگیا عادل حیات
سب کی آنکھوں میں ہے تیرا عندیہ لکھا ہوا
*****************