غزل
کھلی ہوں آنکھیں تو منظر سنوار دیتا ہے
سفر حیات میں خوشیاں ہزار دیتا ہے
وہی ہیں راہیں، وہی منتظر ہیں آنکھیں بھی
مگر وہ دید کا کب اختیار دیتا ہے
اگرچہ گردش پیہم سے تھک گیا ہوں، مگر
کہاں نظر کو وہ میری قرار دیتا ہے
کھلونے ٹوٹے ہیں سارے، پھٹے ہیں سب کپڑے
وہ اپنے بچوں کو ایسے ہی پیار دیتا ہے
بس ایک خواب پریشاں کو جمع کرنے میں
تمام عمر وہ اپنی گزار دیتا ہے
لہولہان گزرتا ہے جب بھی رستے سے
بھنور خیال میں کشتی اتار دیتا ہے
یہ رہ گزر، یہ مکاں اجنبی سے لگتے ہیں
وہ جستجو کو یہ کیسا دیار دیتا ہے
فسانہ دل کا سناؤں تو کس طرح عادل
کہاں کسی کو وہ سانسیں ادھار دیتا ہے
****************