غزل
مجھ کو اپنی تلخیٔ گفتار سے لگتا ہے ڈر
شہر جاں میں اپنے ہی کردار سے لگتا ہے ڈر
رات آتی ہے سیاہی کی ردا اوڑھے ہوئے
صبح میں بھی سرخیٔ اخبار سے لگتا ہے ڈر
خواہشیں بچوں کی جیسے روز مرتی جاتی ہیں
اور مجھے چڑھتے ہوئے بازار سے لگتا ہے ڈر
حال کی ان تلخیوں سے خوف میں کھاتا نہیں
آنے والے وقت کے آثار سے لگتا ہے ڈر
حسرتیں دل میں لیے صدیاں گزاری تھیں کبھی
کیوں مجھے اب اس کے ہی دیدار سے لگتا ہے ڈر
کیوں مری دہلیز تک اب دھوپ آتی ہی نہیں
کیوں مجھے اس ابر سایہ دار سے لگتا ہے ڈر
کیوں مرے دل کو تجسس سا لگا رہتا ہے اب
کیوں مرے دل کو ترے انکارسے لگتا ہے ڈر
جھوٹ ہی اگتے ہیں عادل درمیاں ہونٹوں کے اب
سو مجھے بھی جرأتِ اظہار سے لگتا ہے ڈر
*****************