donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Adil Hayat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
* گزر کے سامنے میرے نفس کے تار سے آیا *

 

 غزل
 
ہر سمت عکس عکس ابھرنے لگا ہے کون
بے رنگیوں میں رنگ سا بھرنے لگا ہے کون
مدّت کے بعد کس کی مجھے یاد آگئی
آنکھوں کے آئینے میں سنورنے لگا ہے کون
آہٹ یہ کیسی اب کہ سماعت پہ چھا گئی
تنہائیوں سے میری گزرنے لگا ہے کون
سائے میں رات کے بھی تھا خوف و ہراس میں
سورج کی روشنی سے بھی ڈرنے لگا ہے کون
پہچان کس کی آنکھوں کے منظر سے کھوگئی
چہرہ ہر ایک آن بدلنے لگا ہے کون
دریا جو تیری آنکھ کا چڑھنے لگا حیات
طغیانیوں سے اس کی ابھرنے لگا ہے کون
 
*****************
 
 غزل
 
دلوں سے رنگِ مروت بھی صاف کرتا ہے
وہ اس طرح سے خطا کو معاف کرتا ہے
ورق ورق میں وہی نام پڑھتا رہتا ہوں
جو لمحہ لمحہ مرا دل شگاف کرتا ہے
ہزار چہرے خیالوں میں جگمگاتے ہیں
بس ایک عکس ترا انحراف کرتا ہے
ہر اک امید ہے بکھرے ہوئے دھوئیں کی طرح
چراغ بجھ کے یہی اعتراف کرتا ہے
وفا کا رنگ بھی بھاتا نہیں اسے عادل
مگر وہ جنگ بھی کس کے خلاف کرتا ہے
 
***************
 
 غزل
 
پنچھی کو تیرے جال کا دانا بھی چاہیے
اچھا سا کوئی ٹھور ٹھکانا بھی چاہیے
اتنا غرور کرنا بھی اچھا نہیں ہے یار
سر کو کبھی کبھار جھکانا بھی چاہیے
جتنا دیا ہے اس پہ قناعت تو ہے مگر
دل چاہتا ہے میرا، زمانہ بھی چاہیے
بجھتے ہوئے چراغ سے امید کب تلک
اب دوسرا چراغ جلانا بھی چاہیے
چاہت نئی زمین کی ویسے بری نہیں
سایا کسی کا سر پہ سہارا بھی چاہیے
سورج تو آگیا ہے امیدیں لیے ہوئے
وسعت زمینِ دل کی بڑھانا بھی چاہیے
سچ بولنے کا زعم بھی عادل برا نہیں
کچھ تو خلافِ رسم زمانہ بھی چاہیے
 
**************
 
 غزل
 
فاصلوں کے اس طرف سے کیا اشارہ ہوگیا
مرتسم پھر آنکھ صفحے پر نظارا ہوگیا
بجلیاں مجھ پر گریں تو کوئی منظر کب بنا
ٹھوکریں اس کو لگیں تو اک نظارا ہوگیا
اک ذرا لغزش ہوئی تھی زندگی کے ساتھ اور
آسماں کی بے کرانی کا میں تارا ہوگیا
خواہشوں کیے سائے بنتے اور بگڑتے ہی رہے
زندگی چلتی رہی، سب کا گزارا ہوگیا
زیست کی راہوں میں عادل اپنے بچّوں کے لیے
ٹھوکریں کھانا بھی اس دل کو گوارا ہوگیا
 
***************
 
 غزل
 
گزر کے سامنے میرے نفس کے تار سے آیا
مقابل دھوپ کے سایا بڑے اسرار سے آیا
یہ مانا زور ہے آندھی کا دل کے صحن میں لیکن
چراغ یاد کو جلنا میرے کردار سے آیا
نکل آئے مرے آنسو مجھی سے ہم کلامی کو
جب کبھی میں صبح کے اخبار سے آیا
رموز زندگی کو ہر کسی پر آئینہ کرنا
ہنر ایسا اسے بھی قوت اظہار سے آیا
بساط زندگی پر مات کھاکر مسکراتا ہوں
ظفر یابی کا فن گویا مجھے اس ہار سے آگیا
ثبات زندگی کا ذائقہ اچھا لگا لیکن
موت کا منظر دل خوددار سے آیا
مناظر میں بھی رقص رنگ ہے عادل حیات اب تو
یہ کیسا شخص میرے گھر سمندر پار سے آیا
 
*************
 
 
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 382