غزل
کوئی آتا ہے درپن میں نہ اب گھر جاگتا ہے
مری خواہش کی دنیا میں بس اک در جاگتا ہے
لبِ محراب پر یوں تو پھپھوندی آگئی ہے
نظر میں دور تک لیکن سمندر جاگتا ہے
وہی سرگوشیاں بے چین رکھتی ہیں، ہمیں اور
وہی امید کا آنکھوں میں منظر جاگتا ہے
ورق میں زندگانی کے پلٹتا جارہا ہوں
بس اک چہرہ نظر کے آئینے پر جاگتا ہے
سویرا ہوگیا تو کھوگئے یادوں کے جگنو
مسلسل ذہن میں میرے وہ منظر جاگتا ہے
سفر کی دھوپ میں وحشت چمکتی ہے ابھی تک
کہیں تو پیڑ برگد کا، کہیں گھر جاگتا ہے
کوئی پرواز کی حد بھی تری عادل کہاں ہے
ہر اک سرحد کے آگے تیرا شہپر جاگتا ہے
*****************