غزل
کہاں وہ خوابوں سے مجھ کو نجات دیتا ہے
جو مانگوں اس سے اجالا تو رات دیتا ہے
بساطِ زیست پہ چالیں پلٹ گئی ہیں سب
مناؤ خیر کہ پیدل بھی مات دیتا ہے
وہی تھا سمت نما میری زندگی کے لیے
ابھر ابھر کے وہی لمحہ گھات دیتا ہے
گھنیری دھوپ کا سایا بھی تو غنیمت ہے
اگا کے آنکھ میں پیڑوں کو پات دیتا ہے
کھڑا ہے میل کا پتھر بنا جو راہوں میں
امید و بیم کی منزل کا ساتھ دیتا ہے
جو توڑ دیتا ہے صبحوں کی ڈور کو عادل
زمیں کی رات کو صبح حیات دیتا ہے
***********