غزل
حقیقتوں کا بھی کوئی شمار ہوتا ہے
سمند وہم پہ ہر اک سوار ہوتا ہے
دعا کے واسطے اٹّھے تھے ہاتھ میرے بھی
سنا تھا میں نے بھی پروردگار ہوتا ہے
میں اس کی راہ کا جلتا دیا نہیں ہوں جب
وہ میرے واسطے کیوں اشک بار ہوتا ہے
لگی ہے آگ یہ کیسی ہمارے سینے میں
رکا جو سیل تھا آنکھوں کے پار ہوتا ہے
اسی مقام پہ میں نے بھی گھر بنایا تھا
کہ یہ خیال بھی بے اعتبار ہوتا ہے
عجب نہیں کہ وہی باوقار ہوجائے
جو اپنے آپ پہ ہردم نثار ہوتا ہے
مگر سلیقے سے کٹتی ہے زندگی عادل
ہوا کے ساتھ بھی گرد و غبار ہوتا ہے
***************