غزل
رات اپنی بے بسی کو جب سے دہرانے لگی
کان کے پردے کو کوئی چیخ سہلانے لگی
پیاس کے صحرا سے تو میرا گزر اکثر ہوا
تشنگی مل کر گلے کیوں آج شرمانے لگی
خواب سے آنکھوں کا پیچھا چھوٹ جائے بھی تو کیا
چھوڑ کر جب ساتھ میرا زندگی جانے لگی
کیا ہوئیں بے رنگ سمتیں کیا ہوئے اجڑے دیار
دل کے ویرانے پہ کیسی روشنی چھانے لگی
اس طرح راہوں میں تنہا گھومنا اچھا نہیں
اُف! کہ اب تنہائی بھی تنقید فرمانے لگی
تم بھی عادل اس کے آگے ہاتھ پھیلاؤ گے کیا
جس کے در پر ساری دنیا سر کے بل جانے لگی
**************