غزل
جنوں کو آئینہ خانے میں لاکے رکھا ہے
خودی میں آپ کو ایسے سجا کے رکھا ہے
نصابِ زیست کا منظر لہو لہو کیوں ہے
یہ کس نے وقت کو خنجر بنا کے رکھا ہے
ہو روشنی کی ضرورت تو اس طرف آنا
چراغ میں نے بھی دل کا جلا کے رکھا ہے
وہ ایک لفظ جو معنی کا آئینہ کردے
وہ احتیاط سے کیسا چھپا کے رکھا ہے
خلاف اس کے جو جائیں تو کس طرح جائیں
اسی نے ذات کو اب تک بچا کے رکھا ہے
زبان اس کی ہے الفاظ بھی اسی کے ہیں
مگر سوال کو دل میں دبا کے رکھا ہے
یہ کس کا نقش بنے جارہا ہے پانی پر
یہ میں نے کس کو نظر میں بسا کے رکھا ہے
^^^^^^^^^^^^^^^^^