غزل
خود اپنے ہاتھوں پہ رکھ کر ہی اپنا سر چلا جاؤں
بلائیں وہ خلوصِ دل سے تو اکثر چلا جاؤں
ابھرتے ڈوبتے سایوں سے وحشت سب کو ہوتی ہے
تو گھر کو چھوڑ دوں اپنے، کہاں ڈر کر چلا جاؤں
سب اپنی قید کی تنہائیوں میں کیسے رہتے ہیں
حصارِ جسم سے نکلوں کہیں باہر چلا جاؤں
متاعِ خواب کی صورت کوئی رہتا ہے اس دل میں
اسے میں چھوڑ دوں کیسے، کہیں کیوں کر چلا جاؤں
جو چہرے چھوڑ آیا تھا، کبھی گلیوں، محلوں میں
مجھے اب تک بلاتے ہیں، میں واپس گھر چلا جاؤں
سفر ہے شرط تو عادل، مجھے شہپر بھی مل جائے
کسی انجان منزل کی طرف اڑ کر چلا جاؤں
^^^^^^^^^^^^^^