غزل
شہرِ جاں ویرانۂ بے آس تو ہوگا نہیں
ہوچکے سب حادثے بن باس تو ہوگا نہیں
ذہن و دل والوں کی حالت کس طرح نازک ہوئی
اے زمیں والوں تمہیں احساس تو ہوگا نہیں
دربدر پھرنے پہ اپنے آگیا ہنسنا انہیں
گھر بھی ان کا سا کسی کے پاس تو ہوگا نہیں
ڈھونڈھنے آئی ہے جس کو صبح کی پہلی کرن
فرد ہوگا وہ کوئی احساس تو ہوگا نہیں
سر اٹھائے جو کھڑا ہوگا ترے دربار میں
وقت کا مارا وہ ہوگا داس تو ہوگا نہیں
بند مٹھی میں چھپاتے پھر رہے ہیں وہ جسے
سنگ ریزہ ہو تو ہو الماس تو ہوگا نہیں
قصۂ جاں بس فضاؤں میں لکھیں گے ہم حیات
یوں بھی حاصل صفحۂ قرطاس تو ہوگا نہیں
&&&&&&&&&&&&&&&&&&