غزل
ہوگئے تھے جو جدا جسموں سے کالی رات میں
چھپ کے بیٹھے ہیں وہ سائے ہر کسی کی گھات میں
پھینکتے ہو جس کی جانب تیر لفظوں کے میاں
وہ بھی ذومعنی کماں رکھتا ہے اپنے ہاتھ میں
جگنوؤں کے شہر میں ہے کیوں اندھیرا آج کل
پی کے سورج سوگیا ہے کون اپنی ذات میں
مل کے سب نے ہی اڑایا اس کی عظمت کا مذاق
چاہتیں آیا تھا لے کر جو کبھی سوغات میں
جیت کی خوشیاں منانا اس قدر اچھا ہے پر
دیکھنا جاکر ادھر بھی، ہے مزہ کیا مات ہے
دے رہی ہیں خشک سالی کا پتا آنکھیں بہت
میں کہ اکثر بھینگ جاتا ہوں مگر برسات میں
ناز ہے اپنی تجلی پر اسے عادل حیات
تیز آندھی سے بچایا جس دیے کو رات میں
***************