غزل
ہر دانستہ کوئی جب بھی پلائے گا یہاں
ایک بے پایاں سکوں دل میں سمائے گا یہاں
گونج باقی ہے ابھی انصاف کی اس کے مگر
کون اس زنجیر کو آکر ہلائے گا یہاں
کاٹ کر نفرت کے سارے پیڑ کوئی ایک دن
پیار کا اک پیڑ آنگن میں لگائے گا یہاں
اٹھ گیا سایا مرے سر پر جو تھا چھتنار کا
کون آخر دھوپ سے مجھ کو بچائے گا یہاں
میں کہ بے بس ہوگیا ہوں اجنبی سے شہر میں
مجھ کو مہماں کون اب اپنا بنائے گا یہاں
میں چلا جاؤں گا تیری زندگی سے ایک دن
بعد میرے کون اب تجھ کو ہنسائے گا یہاں
کس پہ میں احوال کھولوں، کس سے جاؤں پوچھنے
کون گھر کا راستہ تیرے بتائے گا یہاں
چھپ تو جائے گا ابھی وہ سب کی نظروں سے حیات
پر زمانہ داغ دل کب تک چھپائے گا یہاں
^^^^^^^^^^^^^