غزل
اسے جب کوئی بھی نشّہ نہیں ہے
وہ اچھا ہے، مگر اچھا نہیں ہے
چھپا رکھّا ہے خنجر آستیں میں
مگر دامن پر اک دھبّہ نہیں ہے
جواں سارے ہی بوڑھے ہوگئے ہیں
اور اب بچّہ کوئی بچّہ نہیں ہے
نظر میں دور تک بنجر کھلے ہیں
درختوں پر کوئی پتہ نہیں ہے
میں کیسے بات اس کی مان لیتا
وہ اپنے قول کا پکّا نہیں ہے
خطائیں اس سے بھی ہوتی ہیں، لیکن
ہنر میں اپنے وہ کچا نہیں ہے
زباں پر جھوٹ ہی اگتے ہیں عادل
کوئی بھی شخص اب سچا نہیں ہے
*************