غزل
ترا بھی نام سیاق و سباق میں ہوگا
یہ معجزہ بھی کسی دن مذاق میں ہوگا
بنا تھا میل کا پتھر جو میری راہوں میں
خبر نہ تھی کہ وہ میرے فراق میں ہوگا
سفر میں زیست کے چکی بنا جو پھرتا ہے
گھروندہ میری طرح اس کا بھی طاق میں ہوگا
چمک سے جس کی تھی دنیا میں روشنی اب تک
بجھا ہوا سا وہ سورج عراق میں ہوگا
خبر میں چھایا ہوا تھا جو سرخیاں بن کر
یقینا آج مرے اشتیاق میں ہوگا
سفید خون میں اٹھیں گی سازشیں عادل
ترا بھی ہاتھ کسی کے نفاق میں ہوگا
***********