غزل
کس ریاضت سے اسے آتا ہے لفظوں کا ہنر
صورتِ معنی میں جو پنہاں ہے جذبوں کا ہنر
پھر سے ہجرت کرکے منزل اس نے تو پائی نہیں
ہوگیا پر ریزہ ریزہ خواب آنکھوں کا ہنر
اک جھلک ہی دیکھی تھی اس نے تو کوہ طور سے
اب بھی جادو کررہا ہے اس پہ لمحوں کا ہنر
ہوگیا ہے ساتھ تیرے بھی کوئی کیا واقعہ
آنکھ میں جاگا ہے تیری کیوں یہ اشکوں کا ہنر
آج بھی دونوں طرف چرچے بہت ہیں امن کے
سرحدوں پر چیختا ہے پھر بھی جنگوں کا ہنر
دل بہت گھبرا رہا ہے آکے تیرے شہر میں
چھا گیا ہے آنکھ میں بے نور رنگوں کا ہنر
گھر کے باہر بھی بہت مصروف ہے عادل حیات
گھر کے اندر چل گیا ہے دل پہ بچوں کا ہنر
************