غزل
یہ دل کیا، روح تک گھبرا رہی ہے
مجھے تنہائی جیسے کھا رہی ہے
نہ جانے چھاؤں کس کو ہے میسر
سنہری دھوپ کس پر چھا رہی ہے
عجب تنہائیاں ہیں سونے گھر میں
خموشی چیختی ہی جارہی ہے
ہمیں سے بیر ہے پاگل ہوا کو
ہمیں پر ظلم سارے ڈھا رہی ہے
سنہرے لفظ آنکھوں میں اگے ہیں
مرے کانوں میں کوئل گا رہی ہے
مزہ آتا ہے چھپ کر دیکھنے میں
نظر ملتے ہی وہ شرما رہی ہے
مرے اشعار گہرے ہورہے ہیں
کہ میری فکر سجتی جارہی ہے
مرے بھی پاؤں عادل تھک گئے ہیں
مری بھی سانس اکھڑی جارہی ہے
*****************