غزل
حقیقت ہے، طرف داری نہیں ہے
مری پہچان ہشیاری نہیں ہے
گھروں کے فاصلے تو کم ہوئے ہیں
مزاجوں میں ملنساری نہیں ہے
ڈھلا جاتا ہے سورج میرا لیکن
سفر کی کوئی تیاری نہیں ہے
کھلی ہیں کھڑکیاں کمرے کی پھر بھی
ہوا کا سلسلہ جاری نہیں ہے
گلی کوچوں میں بھی ملتی ہیں لاشیں
کہاں پر جنگ اب جاری نہیں ہے
اٹھاتا ہوں جسے میں زور عادل
وہ پتھر ہے مگر بھاری نہیں ہے
************