غزل
سچ کہا جلوہ شرار طور ہے
ذات تو اس کی سراپا نور ہے
پھر صدائے جاں پہ صدیوں کی تھکن
پھر غموں سے دل مرا مہجور ہے
سامنے بچوں کے سر جھکتا نہیں
پر زمانے کا یہی دستور ہے
دیکھتا ہوں آنکھ میں اپنی مگر
دسترس سے وہ بہت ہی دور ہے
گوش سے میرے کبھی گزرا نہیں
قصّۂ جاں یوں بہت مشہور ہے
کس رہا تھا پھبتیوں پر پھبتیاں
آج وہ مجھ سے سوا مجبور ہے
لوٹ کر عادل میں جاؤں کس لیے
کھیت گاؤں میں، نہیں اک دھور۱؎ ہے
**************
۱؎ زمین کی پیمائش کی ایک اکائی، ۲۰ دھور ایک کٹھہ کے برابر