غزل
اپنے حصّے کی انہیں جاگیر دے
قامت انسان کو توقیر دے
خواب آنکھوں میں سجائے ہیں مری
کچھ نہ کچھ ان کی مگر تعبیر دے
پھر وہی وحشت کدے کی چاندنی
آنکھ درپن میں وہی تصویر دے
لب کشائی کی اجازت دی تو ہے
میرے لفظوں میں بھی کچھ تاثیر دے
موت ہی جب ہے کمال زندگی
درمیاں ان کے ذرا تاخیر دے
شعر آنگن میں مرے رکھ دے چراغ
بے جہت لفظوں کو بھی تنویر دے
غم تو عادل کو دیے تو نے بہت
غم بھلانے کی اسے تدبیر دے
***********