غزل
میں خوش نصیب تھا، مجھے ہوا اڑا کے لے گئی
بلندیوں پہ عرش کی دعا اڑا کے لے گئی
میں جیسے کھوگیا کہیں عجیب سی فضاؤں میں
مرے وجود کو تری صدا اڑا کے لے گئی
گمان بن کے رہ گئے جو منزلوں کے تھے نشاں
نقوشِ پائے رفتگاں ہوا اڑا کے لے گئی
صداقتوں کی یہ زمین تنگ ہوچکی ہے اب
جو حق شناس تھے انہیں وبا اڑا کے لے گئی
لبوں پہ گردِ تشنگی جمی ہوئی ہے ہر طرف
سمندروں کی وسعتیں گھٹا اڑا کے لے گئی
ہے زندگی کی راہ میں چہار سو دھواں دھواں
کہ ہر چراغ کی ضیا ہوا اڑا کے لے گئی
حصار خوف میں حیات جی رہے ہیں لوگ سب
سکون زیست شہر سے وبا اڑا کے لے گئی
********************