* سخن میں ہو تقدس فکرِ ربانی بھی ہوت *
غزل
سخن میں ہو تقدس فکرِ ربانی بھی ہوتی ہے
ذرا پرکھو غزل ، آیاتِ قرآنی بھی ہوتی ہے
’’چمن میں آتشِ گل کی فراوانی بھی ہوتی ہے‘‘
مگر شعلہ لپک جائے تو ویرانی بھی ہوتی ہے
کبھی تم وار کرتے ہو کبھی تم پیار کرتے ہو
تمہاری دوستی پر مجھ کو حیرانی بھی ہوتی ہے
ندی والے ابھی دریا کی خاموشی پہ ہنستے ہیں
مگر دریا کی خاموشی میں طغیانی بھی ہوتی ہے
بصیرت ہو تو تم پہچان لو اپنے پرائے کو
کہ غیروں میں بھی تھوڑی شکل انسانی بھی ہوتی ہے
زباں کو قفل کرلو ، ہے اسی میں آبرو اپنی
کہ دنیا میں کہیں قدرِ سخن دانی بھی ہوتی ہے
گراں اُن پر گزرتا ہے مرا سچ بولنا عاقل
کہیں بے نور سی آنکھوں میں تابانی بھی ہوتی ہے
ڈاکٹر) افضال عاقل)
72, Musalmanpara Road, Garulia
24 Parganas (N)
Mob: 9831364521
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|