|
|
|
Shared Successfully.
|
|
|
|
* " مسڈ کال " *
" مسڈ کال "
اُس خموش نمبر پر
" مسڈ کال " کرتے ہو
پتھروں سے خُشبو کا
تم سوال کرتے ہو
کیا خبر نہیں تم کو؟
رابطے بڑھانے سے
فاصلے مٹانے سے
بے شمار قصوں کا
اعتبار حصوں کا
ربط ٹوٹ جاتا ہے
قہقہوں کے ساون میں
آنسوؤں کے دریا کا
ضبط ٹوٹ جاتا ہے
خامشی کے ہونٹوں پر
بین گنگناتے ہین
وصل کے بسے گاؤں
زیرِ آب آتے ہیں
اور کسی سے ملنے کے
صرف خواب آتے ہیں
جو ہوا کی رَتھ پہ ہوں
اُن گئے سواروں کو
لوٹنا نہیں آتا
ربط کے اندھیروں میں
روح کی منڈیروں پر
درد کاگا آ بیٹھے
پھر کہیں نہیں جانا
آنکھ کے گلستاں میں
درد کا بسیرا ہو
روگ کا سویرا ہو
دل سے گنگ بچے کو
خواہشوں نے گھیرا ہو
پھر سوائے آنسو کے
اور کچھ نہیں بھاتا
سانس ٹوٹ جاتی ہے
اور غم نہیں جاتا
تم یہ جانتے بھی ہو
پھر- - - ؟ کمال کرتے ہو!!
جانے والی خُشبو کا
کیوں ملال کرتے ہو؟
اپنے ایک لمحے کو
ایک سال کرتے ہو
اُس خموش نمبر پر
" مسڈ کال " کرتے ہو
احمد حماد
|
|
|
|
|
|
|
|
|
You are Visitor Number : 318
|
|
|
|