* ترے ہی عیب کا یہ عکس ہے جو سر اٹھاتا & *
غزل
ترے ہی عیب کا یہ عکس ہے جو سر اٹھاتا ہے
ارے ناداں تو آئینے پہ کیوں پتھر اٹھاتا ہے
لٹا دیتا ہے خود کو جو جہاں میں قوم کی خاطر
اُسی پر یہ زمانہ انگلیاں اکثر اٹھاتا ہے
کم از کم چار لوگوں سے ہمیشہ واسطہ رکھئے
جنازہ کون خود کا اپنے کاندھوں پر اٹھاتا ہے
گنے جاتے تھے جس کے باپ دادا تاجداروں میں
وہ بے چارہ سڑک پر آج کل پتھر اٹھاتا ہے
وہ انساں قابلِ تعریف ہے میری نگاہوں میں
مصیبت میں غموں کا بوجھ جو ہنس کر اٹھاتا ہے
مرے مولیٰ اُسے بھی آشیانہ اک عطا کردے
جو اوروں کے لئے کرکے مشقت گھر اٹھاتا ہے
اگمؔ ہم اُس کو طاقتور نہیں بزدل سمجھتے ہیں
جو کمزوروں کی جانب بے سبب خنجر اٹھاتا ہے
پروفیسر) اگمؔ شرما)
4-A, C.N.Roy Road, Kolkata-700039
Mob: 9830093509
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|