* یاد ہے ، تنہائیاں ہیں کیا کروں *
غزل
یاد ہے ، تنہائیاں ہیں کیا کروں
درد کی پرچھائیاں ہیں کیا کروں
پاس ہوں جس کے اُسی سے دور ہوں
دل سے دل تک کھائیاں ہیں کیا کروں
دورِ نو نے سب الٹ کر رکھ دیا
خوبیاں ہی خامیاں ہیں کیا کروں
دوڑنے کو یہ قدم بیتاب ہیں
سرد سب پگڈنڈیاں ہیں کیا کروں
دل لگانے کی مجھے فرصت کہاں؟
پیٹ کی لاچاریاں ہیں کیا کروں
میرے گھر کا سائباں بھی اڑ گیا
چاروں جانب آندھیاں ہیں کیا کروں
اے اگم ہے بول بالا جھوٹ کا
غم زدہ سچائیاں ہیں کیا کروں
پروفیسر) اگمؔ شرما)
4-A, C.N.Roy Road, Kolkata-700039
Mob: 9830093509
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|