* اپنی پوشاک سے ہشیار ! کہ خدام قدیم *
اپنی پوشاک سے ہشیار ! کہ خدام قدیم
دھجیاں مانگتے ہیں اپنے گریبانوں کی
صنعتیں پھیلتی جاتی ہیں، مگر اس کے ساتھ
سرحدیں ٹوٹتی جاتی ہیں گلستانوں کی
ان کو کیا فکر کہ میں پار لگایا یا ڈوبا
بحث کرتے رہے ساحل پہ جو طوفانوں کی
مقبرے بنتے ہیں زندوں کے مکانوں سے بلند
کس قدر اوج پہ تکریم ہے انسانوں کی
تیری رحمت تو مسلم ہے، مگر یہ تو بتا
کون بجلی کو خبر دیتا ہے کاشانوں کی؟
ابھی تکمیل کو پہنچا نہیں ذہنوں کا گداز
ابھی دنیا کو ضرورت ہے غزل خوانوں کی
٭٭٭ |