* اے خدا ! زیست کا ہنر بھی دے *
ایک دُعا
ڈاکٹر احمد ندیم رفیع
اے خدا ! زیست کا ہنر بھی دے
مجھ کو ادراکِ خیر و شر بھی دے
آرزو گر اُڑان کی بخشی
ذوقِ تجدیدِ بال و پر بھی دے
عا لمِ شش جہت عطا کر کے
اب مجھے وسعتِ نظر بھی دے
کھول کر چاکِ سینۂِ افلاک
عشق کو حُسن کی خبر بھی دے
دیدۂِ منتظِر دیا ہے اگر
شوقِ دیدارِ منتظَر بھی دے
زندگی کی گھٹن سے بچنے کو
گنبد ِ جا ں میں کوئی در بھی دے
بخش کر سنگ و جادہ و منزل
پاؤں میں حلقۂِ سفر بھی دے
ابر ِ نیساں اگر دیا مجھ کو
ہر صدف میں مری گہر بھی دے
در و دیوار ہی نہیں یا رب !
ان مکانوں میں کوئی گھر بھی دے
پھر سے بیزار ہے تری مخلوق
شہر میں کوئی شہر ور بھی دے
اشک ہی آ گرے مرے لب پر
پیاس کے ساتھ چشمِ تر بھی دے
ہاتھ اٹھاۓ ہوۓ ہوں صدیوں سے
اب دعاؤں میں کچھ اثر بھی دے
میں نے سینچا ہےعمر بھرجس کو
اس شجر پر کوئی ثمر بھی دے
|