غزل
ڈاکٹر احمد ندیم رفیع
نگاہِ یار جب اٹھّے تو روشنی نظر آۓ
ذرا قریب سے دیکھوں تو زندگی نظر آۓ
وہ کم نصیب نہ سمجھیں گے میری طالع مندی
جنہیں وہ صُورتِ زیبا کبھی کبھی نظر آۓ
یہ وہم ہے کہ حقیقت ! جنون ہے کہ محبت !
میں آنکھ بند بھی کر لوں مگر وہی نظر آۓ
یہ انتظار کی شدّت ہے یا فریبِ نظارہ !
شبیہِ دوست کی صورت ہر اجنبی نظر آۓ
اٹھا وہ شور سرِ بزم اس کے آنے پہ یک دم
کہ جیسے بیچ سمندر کے جل پری نظر آۓ
وہ خوش خرام، خوش اندام، خوش لباس ، خوش آگیں
جو ہم سفر ہو تو منزل بھی جھومتی نظر آۓ
رُکے تو اس کی ادا اختلاجِ قلب کا باعث
چلے تو گردشِ دوراں تھمی ہوئی نظر آۓ
سنائی دیتی ہیں اس کے لبوں کی اَن کہی باتیں
چمن میں جب بھی چٹکتی کوئی کلی نظرآۓ
نسیمِ صبح سے کہنا ، اسے ستاۓ نہ ہر گز
اگر وہ زلفِ پریشاں سنوارتی نظر آۓ
ڈاکٹر احمد ندیم رفیع
(مفا علن ، فعلا تن ، مفا علن ، فعلا تن)
مرزا غالب کی ایک غزل اسی بحر میں ہے-
قسم جنازے پہ آنے کی میرے کھاتے ہیں غالب
ہمیشہ کھاتے جو تھے میری جان کی قسم آگے
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸