غزل
ڈاکٹر احمد ندیم رفیع
دھنک کے رنگ فضا میں سجا رہی ہے ہوا
کہ تیرا عکس اُفق پر بنا رہی ہے ہوا
بکھرتی دُھول نے دھندلا دیۓ کئی چہرے
ترے نقوش بھی دل سے مٹا رہی ہے ہوا
مرے دریچے میں تُو جو چراغ چھوڑ گیا
پلٹ کے دیکھ کہ اس کو بجھا رہی ہے ہوا
تمھارے ہاتھ کو جنبش کہیں ہوئی ہو گی !
کہ ہولے ہولے مجھے تھپتھپا رہی ہے ہوا
تمہاری پلکوں پہ جمنےلگی ہے گرد کی تہہ
بنا کے خاک مرا دل اڑا رہی ہے ہوا
تعلّقات کے محبس میں قید ہوں ورنہ
میں جانتا ہوں کہ باہر بلا رہی ہے ہوا
کھڑا ہوں محوِ تحیر حصارِ خوشبو میں
ترا وجود مرے پاس لا رہی ہے ہوا
نسیمِ فصلِ بہاراں کی آمد آمد ہے
کہ تیری دید کا پیغام لا رہی ہے ہوا
حریمِ یار میں آرام کے بہانے سے
شبِ وصال کی خوشبُو چُرا رہی ہے ہوا
یہ مُشک بار فضائیں، یہ نرم رو جھونکے
قیاس ہے، ترا مسکن سجا رہی ہے ہوا
کسی جگہ تو یقیناً برہنہ پا ہو گا
جو رہگزار میں پتّے بچھا رہی ہے ہوا
ڈاکٹر احمد ندیم رفیع
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸