* خزاں کی رُت میں یہ مشغلہ تھا *
خزاں کی رُت میں یہ مشغلہ تھا
میں بکھرے پتے سمیٹتا تھا
عجیب تر تھیں تمہاری یادیں
میں زندہ رہ کر نہ جی سکا تھا
چلی تھی مجھ میں وہ کیسی آندھی
کہ دل کا خیمہ اکھڑ گیا تھا
برس رہی تھی وہ کیسی بارش
کہ درد مجھ میں ٹپک رہا تھا
بہا تھا تھا آنکھوں سے میری آنسو
کہ کوئی منظر پگھل گیا تھا
میں اپنی ہستی کے بتکدے میں
وفا کی مورت بنا رہا تھا
رکا ہوں میں جس کی خاطر
وہ میری خاطر نہ رُک سکا تھا
وہ مجھ پہ اترا عذاب بن کر
جو دل کے مندر کا دیوتا تھا
|