* کاش کے ہم سب کونجیں ہوتے *
کاش کے ہم سب کونجیں ہوتے
ڈار سے کوئی کونج بچھڑتی
اس کے غم میں رویا کرتے
کاش کہ ہم سب سپنے بُنتے
ساری سندر کومل آنکھیں
جب نیندوں کے دیس کو جاتیں
چپکے سے اُن میں بس جاتے
کاش کہ ہم سب آنسو ہوتے
درد سے جب جی گھٹنے لگتا
بہہ کر غم کی پیاس بجھاتے
کاش کہ ہم سب پتے ہوتے
شاخوں سے جب ٹوٹ کے گرتے
خاک میں مل کر گم ہو جاتے
لیکن بے حس انساں ہیں ہم
کونجیں روئیں ، سپنے ٹوٹیں
اشک گریں یا پتے ٹوٹیں
ہم کو کچھ احساس نہیں ہے
ہم کو کچھ احساس نہیں ہے
|