* تو کیوں آنکھوں سے آئے خوشبو نظر نظ *
غزل
~~~
تو کیوں آنکھوں سے آئے خوشبو نظر نظر میں گلاب ٹھہرا
صبا میں کیسے نہ تازگی ہو سحر سحر میں گلاب ٹھہرا
سفر ستارا چمک رہا ہے، ہر ایک رستہ مہک رہا ہے
میں خوش مقدر کہ ہمسفر بھی سفر سفر میں گلاب ٹھہرا
خزاں کے موسِم کا صبرِ پیہم، جو جاں گُسِل تھا تو آج ہمدم
اُٹھائے شاخوں نے کیسے پرچم، ثمر ثمر میں گلاب ٹھہرا
فلک فلک سے اُتر رہی ہے، خمار سانسوں میں بھر رہی پے
حسین خوشبو بکھر رہی ہے، قمر قمر میں گلاب ٹھہرا
مری تمنا کی خوش جبیں کے، مری وفا کے مرے یقیں کے
مری محبت کی سر زمیں کے نگر نگر میں گلاب ٹھہرا
وہ آئینہ بن کے تھا مقابل، نہ بس میں عاشی رہا مرا دل
میں چونک اُٹھی کہ دھڑکنوں کی خبر خبر میں گلاب ٹھہرا
~~~~~~~
عائشہ بیگ
~~~~~~~
|