* اندر سے کوئی گھنگھرو چھنکے، کوئی « *
اندر سے کوئی گھنگھرو چھنکے، کوئی گیت سنیں، تو لکھیں بھی
ہم دھیان کی آگ میں تپتے ہیں کچھ اور تپیں تو لکھیں بھی
یہ لوگ بیچارے کیا جانیں کیوں ہم نے حرف کا جوگ لیا
اس راہ چلیں تو سمجھیں بھی، اس آگ جلیں تو لکھیں بھی
دن رات ہوئے ہم وقفِ رفُو، اب کیا محفل کیا فکرِ سخن
یہ ہات رُکیں تو سوچیں بھی، یہ زخم سِلیں تو لکھیں بھی
ان دیواروں سے کیا کہنا، یہ پتھر کس کی سنتے ہیں
وہ شہر ملے تو روئیں بھی، وہ لوگ ملیں تو لکھیں بھی
خالی ہے من کشکول اپنا، کاغذ پہ اُلٹ کے سرمایہ
جو کشٹ کمائے لکھ ڈالے، دکھ اور سہیں تو لکھیں بھی
|