* بکھرا ہوں جب میں خود یہاں کوئی مجھ *
بکھرا ہوں جب میں خود یہاں کوئی مجھے گرا ے کیوں
پہلے سے راکھ راکھ ہوں پھر بھی کوئی جلا ے کیوں
راتوں میں انتظار کیوں ،امید ا وصل ا یار کیوں
بیداریاں جو دے گیا آکر وہی سلا ے کیوں
اے گی جب نسیم ا صبح ، خود ہی بجھے گا یہ چراغ
اسکو سحر سے پیشتر کوئی بھلا بجھا ے کیوں
پلتا ہمارے خوں سے ہے نسبت مگر عدو سے ہے
اپنا نہیں جو بیوفا ہم کو یوں آزماے کیوں ؟
یکتا وہ حسن ا اکبری ،دل یہ حقیر و اصگاری
اتنی وسیع شئی بھلا دل میں مرے سماے کیوں
اسکو بتا کے رنج یہ ،پاے ہیں صرف طنز یہ
محرم ہی جب رقیب ہو کوئی یہ غم سناہے کیوں
بچ جائے زلزلے سے گر ،طوفاں اسے مٹا ےگا
بستی میں ایسی ای سحاب گھر بھی کوئی بناہے کیوں
****** |