* نظر کے تار پہ مجبورِ رقص حلقہء چشم *
نظر کے تار پہ مجبورِ رقص حلقہء چشم
تھکن سے چوُر قدم پُتلیوں سے پوچھتے ہیں
حضر کی منزلِ دشواردُور کتنی ہے
برونِ پردہ وہ دستِ ہنر کب آئے گا ؟
وہ ہاتھ جس کی ہر انگشتِ فکر سے پیوست
صدائے ساز کا رشتہ رگِ تماشا ہے
شنید و دید کے کاسہ بدست منظر کب
طلب کریں گے بہا چشم سیر لوگوں سے
گریں گے رحم کے سکے کب ان حجابوں پر
تماشا ساز نے اب تک جنہیں اُٹھایا نہیں
|