* اسے نہ کھول درِ بے توجہی کی طرح *
اسے نہ کھول درِ بے توجہی کی طرح
گرہ بچی ہے یہی رابطوں کے تاگے میں
یہ ہجرِ ذات کا دریا ہے درمیاں تو اسے
میں ایک پر کے سہارے عبور کر لوں گا
نہ چُن زمیں سے رہائی کی بوند بوند شفق
دھنک کے رنگ مرے جسمِ بے سپہر میں ہیں
زبانِ تشنہ نہ رکھ آبِ شور پر کہ مری
خمیدہ پُشت پہ رکھا ہے اب بھی مشکیزہ
اسے نہ کھول درِ بے توجہی کی طرح
گرہ بچی ہے یہی رابطوں کے تاگے میں
|