* اُسے خبر بھی نہیں ہے کہ اس کا دیوان *
غزل
اُسے خبر بھی نہیں ہے کہ اس کا دیوانہ
عبور کر بھی گیا زندگی کا ویرانہ
تمہارا گھر بھی اسی راستے میں ہے لیکن
کشاں کشاں چلاجاتا ہوں سوئے میخانہ
میں زخم زخم سہی ، حوصلہ ہے تازہ دم
کہ حّدِ شوق سے آگے ہے میر ا کاشانہ
مرے ہی جسم کے اندر ہے مجھ سے کٹ کے جو
اُسی کے ساتھ رہا میرا خوب یارانہ
ہوائے تازہ چلی بعد ایک مدت کے
دریچے کھول بھی دو ، وا کرو درِ خانہ
جنوں گلی سے تری ہوکے دار تک پہنچا
کنارِ جوئے ندامت ہے عزمِ فرزانہ
کھنچے کھنچے سے ہیں احباب اس لئے آزرؔ
کہ مفلسی میں ہے میرا مزاج شاہانہ
****
|