* مرا وجود ہے میرے دیار کی مانند *
غزل
مرا وجود ہے میرے دیار کی مانند
رکا ہوا ہے کہیں وہ بہار کی مانند
پھسل رہا ہوں بلندی سے میں زمیں کی طرف
کوئی تو سامنے آئے چنار کی مانند
بدن ہے سروِ قیامت ،نقوشِ منظرِ گل
ہنسی تمہاری کسی آبشار کی مانند
کھلے ہیں پھول بھی زخموں کے، آنکھ برسی بھی
مگر ہے قرئیہ جاں رہگذار کی مانند
ہم اپنے غم کا مداوا کہاں تلک کرتے
رہا وہ دشمن ِ جاں غمگسار کی مانند
ہمارے برف سے ہاتھوں کو بھی حرارت دے
کسی کا قرب اگر ہے شرار کی مانند
کھلے ہیں پھول، ہوا بھی ہے خوشگوار مگر
بہا ر لگتی نہیں ہے بہار کی مانند
کبھی طلب کی فصیلیں نہ کر سکے اونچی
جھکا تو تھا وہ کسی شاخسار کی مانند
نشانئہِ شبِ وعدہ ہوں کوئی دن آزرؔ
گرونگا شاخِ وفا سے شکار کی مانند
****
|