* نہ راستہ نہ مسا فت نہ حادثہ برسوں *
غزل
نہ راستہ نہ مسا فت نہ حادثہ برسوں
یہی جمود رہا میرا سا نحہ برسوں
وہ جس کے پائوں کے چھا لے نشانِ منزل ہیں
اُس ایک شخص کو روئے گا راستہ برسوں
ترے لبوں پہ جو اُترا تھا ایک رنگ کبھی
مرے لبوں پہ رہا اس کا ذائقہ برسوں
کبھی سلجھ گئیں زُلفیں تو چند لمحوں میں
کبھی چلا تو چلا یہ معا ملہ برسوں
یہ سچ کہ ملتے رہے ہم ہر ایک شام ٗ مگر
دلوں کے بیچ رہا ایک فاصلہ برسوں
اُس ایک شخص پہ آزرؔ نگاہ رکھنا کہ جو
کشید گی میں بھی رکھتا ہو را بطہ بر سوں
****
|